Larki ko nikah se pehly dekh lena behtar hai article by Muniba Gul


🌹لڑکی کو نکاح سے پہلے دیکھ لینا بہتر ہے 🌹

لڑکی کو دیکھنے کے سلسلہ میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے ۔ اس کے ایک سورت تو یہ ہے کہ پیغام دینے والا خود اس لڑکی کو جانتا ہے اور اس کو کس طرح دیکھ لے یہ اچھی صورت ہے۔ دوسرے صورتِ کہ لڑکے کی ماں،  بہن،  پھوپھی یا کوئی عزیز خاتون لڑکی کے گھر جاکر دیکھ لے اور اطمینان کرلے ۔اس صورت میں  اس بات  کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ جو لڑکی دکھائی ہے۔ جس کو لڑکا پیغام دیتا چاہتا ہے ۔ بعض مرتبہ لڑکی والے اس قسم کے مواقع پر کوئی اور لڑکی سامنےلے آتے ہیں ۔
نکاح سے پہلے لڑکی کو دیکھ لینا اچھی بات ہے ۔ لیکن آج کل ہمارے ہاں اس اچھی بات کو لوگوں نے بگاڑ دیا ہے ۔ہمارے نوجوان جب تک جوان رہتے ہیں ۔تب تک شادی کرنے کا نام نہیں لتیے ۔کہتے ہیں ۔کہ ایم  اے کریں گے۔ ڈاکٹر بنا گے ۔انجینئر بنے گے۔وغیر ۔ملازمت ملے گی، تب شادی کریں گے۔ ملازمت ملنے کے بعد تیس کے لک بھگ عمر ہوجاتی ہے۔
اب انھیں رشتہ کے لیے کی تلاش ہوتی ہے۔ اور  خواہش ہوتی ہے ۔ کہ لڑکی خوبصورت ہو، تعلیم یافتہ ہو، اچھے خاندان کی ہو، پندرہ سال کی ہو۔اس قسم رشتہ کے لیے وہ جگہ پیغام دیتے ہیں ۔
اور جب لڑکی دیکھائی جاتی ہے۔ تو یہ کہ کر ٹھکرادتیے ہیں ۔کہ اس کی عمر زیادہ ہے۔ کبھی یہ کہ کر ٹھکرا دیتے ہیں ۔ کہ عمر تو ٹھیک ہے۔لیکن خوبصورت  نہیں ہے ۔کبھی یہ کر ٹھکرا دیتے ہیں ۔کہ خوبصورت تو ہے ۔لیکن تعلیم یافتہ نہیں ہے ۔ یہ سوچنے کی بات ہے ۔کہ اس قسم کی باتوں کی بنا پر لڑکیوں کو ٹھکرا دیتے ہیں ۔ان لڑکیوں کی دل پر کیا گزرتی ہوگی ۔؟
اور ان کے والدین اور بہن بھائی اس کا رویہ کو کتنا محسوس کرتے ہوں گے۔؟
یہ سلوک اور یہ رویہ آج کے نوجوان میں پایا جاتا ہے ۔افسوس اس بات  کا ہے۔کہ اس قسم کے نوجوان ان کے والدین اور بزرگوں کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے ۔حالانکہ ان کا فرض ہے ۔کہ اس قسم کی صورت میں تعاون کریں ۔بلکہ ایسے جوانوں کی حوصلہ شکنی کریں ۔ان کے لیے خود اچھا اور موزوں رشتہ تلاش کرکے دیں۔
رشتہ کی تلاش کے سلسلہ میں لڑکے کو اجازت ہے ۔کہ وہ خود اپنے لیے جستجو کرے ۔لیکن عام طور پر اس قسم کے رشتے اتنے مفید اور پائیدار  ثابت نہیں ہو تے۔اس وجہ سے جو اس عاجز کے ذہن میں آتی ہے ۔یہ ہے۔ کہ لڑکا جوانی کے عالم میں جوشیلا اور جزباتی ہوجا جاتا ہے ۔وہ لڑکی کے محض ظاہری خدوخال اور خوبصورت کو دیکھتا ہے ۔کہ یہ لڑکی ہميشہ اسی طرح خوبصورت رہےگی۔اور خود اسی طرح  جوان رہے گا اور  ان کے درمیان پیار اور  محبت کا سلسلہ رہےگا۔لیکن ان کا یہ سمجھنا صحیح نہیں ہوتا ۔رشتہ ہوجانے کے بعد جب سال دو سال گزر جاتے ہیں ۔تو اب وہ اپنی بیوی کو پیار نہیں دے سکتا جو شروع میں دیتا تھا۔اور وہ رویہ نہیں رکھ سکتا جو شروع میں رکھتا تھا ۔یہاں سے ان کے درمیان تلخیوں کا آغاز ہوجاتا ہے۔خاندان کے لوگوں اس لیے خاموش رہتے ہیں ۔ کہ لڑکے کا رشتہ اپنی مرضی اور خوشی سے ہوا تھا۔اور رشتہ  کے ہونے میں گھر کے بڑوں اور بزرگوں  کا معروف ومعقول دخل نہیں تھا اور اس طرح پیار اور محبت سے شروع ہونے والا  یہ رشتہ طلاق اور جدائی پر منتج ہو جاتا ہے۔
رشتہ کا بہترین صورت یہ ہے۔ کہ خاندان کے بڑوں اور بزرگوں کے مشورہ سے ہو ۔خاص کر لڑکے کے والدین اور بہن بھائی اس سے مطمئن  ہوں ۔اور لڑکی کے  والدین اور اہل خانہ خوش اور رضی ہوں۔ اس قسم کے رشتہ پائیدار اور دونوں خاندانوں کے مفید ہوتا ہے ۔اس صورت میں میاں بیوی میں کہیں تلخی ہو بھی جائے تو دونوں خاندان مل کر اس تلخی کو ُدور کر لتے ہیں ۔اور رشتہ استوار رہتا ہے ۔اور سب سے بہترین رشتہ وہ ہے۔جو اپنے خاندان میں ہو۔اگر اپنے خاندان میں رشتہ ملے تو اس کو ترجیح دینی چاہیے ۔اس لیے اس قسم کے رشتہ سے خاندان کو مزید تقویت ملتی ہے ۔تعلقات اور مراسم میں اضافہ ہوتا ہے ۔فریقین آپس میں ویسے بھی مانوس ہوتے ہیں ۔اور رشتہ ازواج میں منسلک ہو جانے کے بعد ان کی زندگی اور بھی خوشگوار ہو جاتی ہے ۔
رشتہ میں خاندان کے  بڑوں اور بزرگوں  کا مشورہ  اور  ان کی. رائے  بہت اہمیت  کی حامل  ہے ۔ لیکن  ان حضرات کو اپنی رائے  لڑکے یا لڑکی پر  مسلّط نہیں  کرنی چاہئے  ۔اگر  لڑکا یا لڑکی  رشتہ سے مطمئن ہوں  تو ٹھیک  ہے ۔ورنہ جبر سے  کام  نہیں  لینا چاہئے  ۔  ہمارے ملک کے بعض حصوں  میں  رشتہ بالکل والدین  یا بزرگوں  کی مزضی سے ہوتا ہے ۔ اس میں  لڑکے یا لڑکی سے کسی قسم کا مشورہ  نہیں  لیا جاتا ۔ بلکہ  اگر لڑکا یا لڑکی کسی رشتہ  کے بارے میں  اظہار  کریں تو اسے عار اور  شرم سمجھا جاتا ہے ۔ اور  ایسے لڑکا یا لڑکی  کو طعنے دئیے جاتے ہیں ۔ خیبر پختونخواہ کے دیہاتوں  میں  یہ مشہور ہے ۔ کہ لڑکی  اگر کسی لڑکے کی طرح  میلان ظاہر کرے اور چاہے کہ اس کے  ساتھ  اس کا رشتہ ہو جائے تو ایسے لڑکے کے ساتھ  کبھی بھی اس کا رشتہ نہیں کیا جاتا، اس لیے کہ یہ غیرت کے خلاف  ہے ۔جو رشتہ والدین کے مزضی سے طے ہوتے ہیں ۔ وہ عام طورپر  کامیاب ہوتے ہیں ۔اس لیے کوئی  والدہ یا والد اپنے بیٹے یا بیٹی کے لیے یہ نہیں  چاہتا  کہ اس کا رشتہ اچھا نہ ہو ۔ ان کی پوری کوشش  ہوتی ہے ۔ کہ رشتہ اچھے  سے اچھا  ہو۔ اس لیے کہ مستقبل میں ان پر بھی  ذمہ داریاں  عائد  ہوتی ہیں ۔ لیکن بہر حال  لڑکے اور  لڑکی  کو اعتماد  میں  لینا ضروری  ہے ۔ بعض مرتبہ والدین  رشتہ  کرادتیے  ہیں ، لیکن  وہ لڑکے کو پسند  نہیں  ہوتا اور  اس طرح  وہ  فساد کا باعث بن جاتا ہے ۔
ایک اور  مصیبت جو ہمارے ملک میں  کے بعض حصوں میں پائی جاتی  ہے۔ وہ یہ ہے ۔ کہ لڑکے  یا لڑکی  کا رشتہ  بچبن میں  طے کر دتیے ہیں ۔ شمالی علاقوں  اور  چترال  وغیرہ میں اس  قسم کے رشتے  کثرت سے  طے پاتے ہیں ۔ لڑکا اور  لڑکی  دونوں  چھوٹے ہوتے ہیں ۔ ان کے والدین  مل  کر ان کا رشتہ  طے  کر لتیے ہیں ۔ اور  بعد  میں  جب وہ  بالغ ہو تے ہیں ۔ ، تو ان کی شادی  کر دتیے ہیں ۔ اس قسم کے رشتے  اگر چہ کامیاب  رہتے ہیں ۔ لیکن بعض مرتبہ  ان میں  بھی  توازن  کی کمی کی وجہ سے  تلحی شروع  ہو جاتی ہیں ۔ لڑکی قررتاّ پہلے  بڑھ جاتی ہے اور بالغ ہو جاتی ہے ۔ جبکہ لڑکا اس کے مقابلہ  میں  ابھی کمزور  ہوتا ہے ۔ یا  کوئی ایک  فریق بچبن میں  خوبصورت  اور  تندرست ہوتا ہے ۔ بعد میں  بیمار  یا کسی حادثہ کی وجہ سے اس کے اس کی خوبصورتی  اور  تندرستی  ختم ہو جاتی ہے ۔ لڑکے  کو  پڑھنے  کا موقع مل جاتا ہے ۔اور  پڑنے میں  مشغول ہو جاتا ہے ۔ اور  لڑکی  اس کے انتظار  میں  بالغ ہوتے ہوئے بیٹھی رہتی ہے ۔ اور اَن پڑھ  رہ جاتی ہے ۔ اس قسم کئ صورتیں ہیں ۔ جن کی وجہ سے ایسے رشتوں  کا توازن  بعد میں  بگڑ جاتا  ہے۔ اور کامیاب نہیں  رہتے۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
جس لڑکی  سے نکاح کرنے کا ارادہ ہو اس کو ایک  نظر  دیکھ لینا گناہ نہیں بلکہ  بہتر ہے ۔ اس ضمن میں حضور اکرم صلی الله عليه وسلم کا ارشاد ہے ۔
,,حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ۔کہ رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ کس آدمی کے دل میں کسی عورت کے لیے  نکاح کا پیغام دینے کا خیال ڈالے تو اس کے لیے گناہ نہیں ہے ۔ کہ ایک نظر اس دیکھ لے۔،،
***********************


ختم شد




No comments:

Post a Comment